تعارف اور پس منظر
پاکستانی معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں آج کل بہت سے پیچیدہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر جب شادی میں عمر کا فرق زیادہ ہو تو یہ مسائل اور بھی شدید ہو جاتے ہیں۔ نادیہ کی یہ حقیقی کہانی ایک ایسی ہی مثال ہے جو ہمیں دکھاتی ہے کہ شادی میں صرف خاندانی فیصلے اور رسم و رواج کافی نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی پختگی بھی انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نادیہ کی ابتدائی زندگی اور تعلیمی پس منظر
نادیہ ایک پڑھی لکھی اور ذہین 23 سالہ نوجوان خاتون تھی جو اپنے خاندان کے ساتھ لاہور کے ایک متوسط طبقے کے محلے میں رہتی تھی۔ وہ بی اے کی تعلیم مکمل کر چکی تھی اور کمپیوٹر کورس بھی کر رہی تھی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنا کیریئر بنائے اور خاندان کی مالی مدد کرے۔ نادیہ کے والد ایک چھوٹے کاروبار میں ملازم تھے اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔
نادیہ کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہ گھریلو کام کاج میں ماہر تھی، کھانا پکانا جانتی تھی، اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی۔ اس کے دوست اور خاندان کے لوگ اسے ایک سمجھدار اور ذمہ دار لڑکی سمجھتے تھے۔ لیکن اس کے والدین کو فکر تھی کہ لڑکی کی عمر بڑھ رہی ہے اور اسے جلدی شادی کرنی چاہیے۔
خاندانی دباؤ اور رشتے کی تلاش
نادیہ کے والدین نے جب اسے شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا تو وہ پہلے تو راضی نہیں تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ پہلے اپنا کیریئر بنائے، کچھ پیسے کمائے، اور پھر شادی کرے۔ لیکن گھر میں روزانہ کی بحث اور دباؤ کی وجہ سے آخر کار وہ اپنے والدین کی بات ماننے پر مجبور ہو گئی۔
اس کے والدین نے اپنے رشتے داروں، دوستوں اور محلے کے لوگوں سے بات چیت شروع کی۔ کئی رشتے آئے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے بات نہیں بنی۔ کہیں لڑکے کا خاندان زیادہ جہیز مانگ رہا تھا، کہیں لڑکا بیرون ملک جانا چاہتا تھا، اور کہیں عمر کا فرق زیادہ تھا۔
فیصلہ کن رشتہ اور اس کی تفصیلات
آخر کار نادیہ کے والدین کو اپنے دور کے رشتے دار کے ذریعے ایک رشتہ ملا۔ یہ رشتہ ان کے چچا زاد بھائی کے بیٹے سے تھا جو صرف 16 سال کا تھا۔ لڑکے کا نام احمد تھا اور وہ انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا۔ اس کے والدین نے کہا کہ لڑکا پڑھ لکھ کر اچھا کام کرے گا اور نادیہ کو خوش رکھے گا۔
جب نادیہ کو اس رشتے کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے شدید اعتراض کیا۔ اس نے کہا کہ لڑکا بہت چھوٹا ہے، ابھی پڑھ رہا ہے، اور اس میں شادی کی ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن اس کے والدین نے کہا کہ لڑکا اچھے خاندان سے ہے، اخلاق والا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
شادی کی تقریبات اور ابتدائی دن
خاندان کے دباؤ اور مجبوری کے تحت نادیہ نے اس رشتے کے لیے ہامی بھر دی۔ شادی کی تقریبات بہت سادہ طریقے سے منعقد ہوئیں کیونکہ دونوں خاندانوں کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ نکاح کے وقت نادیہ کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ کسی بچے سے شادی کر رہی ہے۔
شادی کے بعد پہلے کچھ دنوں میں نادیہ کو احساس ہوا کہ اس کا شوہر واقعی ابھی بھی بچپن میں تھا۔ احمد کی دلچسپی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں تھی، موبائل گیمز میں تھی، اور کرکٹ کھیلنے میں تھی۔ وہ شادی کی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔
روزمرہ زندگی میں مسائل
شادی کے بعد جب نادیہ اور احمد کو ایک ساتھ رہنا پڑا تو مسائل مزید واضح ہو گئے۔ صبح کے وقت جب نادیہ ناشتہ تیار کرتی تو احمد اسکول جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ وہ دیر سے اٹھتا، لیٹ کلاس میں جاتا، اور شام کو واپس آ کر دوستوں کے ساتھ کھیلنے نکل جاتا۔
نادیہ کو لگتا تھا کہ وہ کسی بچے کی ماں بن گئی ہے، بیوی نہیں۔ اسے احمد کو بار بار یاد دلانا پڑتا کہ کپڑے صاف کرے، کھانا وقت پر کھائے، اور پڑھائی پر توجہ دے۔ یہ صورتحال نادیہ کے لیے انتہائی تناؤ کا باعث تھی۔
ذہنی اور جسمانی عدم مطابقت
عمر کے اس فرق کی وجہ سے دونوں میں ذہنی اور جسمانی طور پر بہت زیادہ فرق تھا۔ نادیہ ایک پختہ اور سمجھدار خاتون تھی جو زندگی کی ذمہ داریوں، مالی مسائل، اور گھریلو کام کاج کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ جبکہ احمد ابھی بھی کھیل کود، دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے، اور تفریحی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔
رات کے وقت جب نادیہ گھر کے کام مکمل کر کے آرام کرنا چاہتی تو احمد اپنے دوستوں کے ساتھ فون پر باتیں کرتا رہتا۔ وہ دیر رات تک جاگتا اور پھر صبح دیر سے اٹھتا۔ یہ تمام چیزیں نادیہ کے لیے پریشانی کا باعث تھیں۔
معاشرتی دباؤ اور تبصرے
معاشرے میں بھی نادیہ کو مختلف قسم کے ناخوشگوار تبصروں کا سامنا کرنا پڑا۔ محلے کی عورتیں اور رشتے دار اسے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ کیسی شادی ہے جہاں بیوی شوہر سے بڑی ہے۔ کچھ لوگ طعنے دیتے تھے کہ نادیہ نے اپنے چھوٹے بھائی جیسے لڑکے سے شادی کی ہے۔
یہ تمام باتیں نادیہ کے لیے ذہنی تناؤ اور شرمندگی کا باعث بن رہی تھیں۔ وہ گھر سے نکلنے میں جھجھک محسوس کرتی تھی اور لوگوں سے ملنے جلنے سے بچنے کی کوشش کرتی تھی۔
مالی مسائل اور ذمہ داریاں
احمد ابھی طالب علم تھا اور اس کے پاس کوئی آمدن نہیں تھی۔ اس کے والدین اسے جیب خرچ دیتے تھے جو بہت کم تھا۔ گھر کے تمام اخراجات نادیہ کے والدین کو اٹھانے پڑ رہے تھے۔ نادیہ کو لگتا تھا کہ اس کی شادی کی وجہ سے خاندان پر مالی بوجھ بڑھ گیا ہے۔
حل کی تلاش اور مشورے
نادیہ نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے مشورہ کیا۔ اس کی دادی اور نانی نے کہا کہ صبر کرو، لڑکا ابھی چھوٹا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ سمجھدار ہو جائے گا اور حالات بہتر ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شادی میں صبر اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن نادیہ کو لگتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف وقت کے ساتھ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ عمر کا فرق بہت زیادہ ہے۔ اس نے کچھ تعلیم یافتہ رشتے داروں سے بھی بات کی جنہوں نے اسے تعلیم جاری رکھنے اور کام کرنے کا مشورہ دیا۔
نتیجہ اور اہم سبق
نادیہ کی یہ کہانی ہمیں کئی اہم سبق دیتی ہے۔ پہلے یہ کہ شادی میں صرف خاندانی رضامندی کافی نہیں بلکہ دونوں فریقوں کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی پختگی بھی انتہائی اہم ہے۔ دوسرے یہ کہ عمر کا زیادہ فرق رشتے میں مسائل پیدا کر سکتا ہے جو بعد میں حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
آج کے دور میں شادی کے فیصلے کرتے وقت تمام پہلوؤں کو دیکھنا ضروری ہے۔ عمر کا مناسب فرق، تعلیم کی سطح، ذہنی پختگی، مالی استحکام، اور دونوں فریقوں کی رضامندی جیسے عوامل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔۔